منگل، 21 جنوری، 2014

وہ کھٹے میٹھے دن



 وہ کھٹے میٹھے دن   از::  عابی مکھنوی




گاؤں کے سادہ لوح باسی ابھی اتنے مہذب نہیں ہوئے تھے کہ گھروں کے بیچوں بیچ بہنے والی آبپاشی کی نالیوں کو بطور گٹر استعمال کرتے۔اس لیے گھر کے برتن اور منہ ہاتھ وسط صحن سے گزرنے والی پڑک پڑک کرتی نالی پر ہی پورے اعتماد کے ساتھ دھوئے جاتے تھے۔

اردو میں پانی کی نالی بہت چھوٹی نالی کو کہتے ہیں۔جس نالی کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ نالی نہین ""کٹھی """ تھی۔نالی اور کٹھی کے سائز میں وہی فرق ہوتا ہے جونالی اور نلکی کے سائز میں ہوتا ہے۔چونکہ ہمیں کٹھی کے لیے اردو کا لفظ معلوم نہیں اس لیے گھر کی کٹھی کو نالی ہی کہیں گے۔

ہمارے لیے گھر کے وسیع و عریض صحن سے گزرنے والی آبپاشی کی نالی قدرت کا عظیم تحفہ تھی۔بل کھاتی ناگن کی طرح یہ نالی صحن سے ہوتی ہماری دادی اماں (جن کو ہم سب پیار سے ""بی جی "" کہہ کر پکارتے تھے)کے کمرے کے نیچے سے گزرتی تھی۔ہمارے گھر تک پہنچنے سے پہلے یہ نالی تقریباً ایک درجن سے زائد گھروں کے مکینوں کی امانت کا امتحان لیتی تھی۔اس میں درمیانے درجے کا بہاؤ تو تقریباً سارا سال ہی رہتا لیکن جب کبھی کوئی کسان بھائی اپنے کھیت کے لیے پانی باندھ کر لاتا تو تیز بہتے پانی کی وجہ سے گھر ایک مدھر جلترنگ سے گونج اٹھتا۔جی ہاں دنیا میں صرف ہزارہ ہی ایسی جگہ ہے جہاں کے لوگ پانی کو بھی باندھ سکتے ہیں باقی دنیاتو پانی کے بند باندھتی ہے۔

اس زمانے میں فتویٰ بازی بچوں میں بھی اتنی ہی مقبول تھی جتنی آج کل بڑوں میں ہے۔منتخب فتاویٰ کا تذکرہ حسب موقع ہمارے مضامین میں آتا رہے گا۔فی الوقت جس فتوے کا ذکر ہے وہ ہم نے اپنے کسی ہم عصر مفتی سے سنا تھا کہ حضرت خضر علیہ السلام بہتے پانی کے کنارے پر سائلین سے ملاقات کرتے ہیں اور درپیش مصیبتوں سے چھٹکارے کے لیےان کی رہنمائی فرماتے ہیں۔

ان دنوں ہمیں بھی ایک جان لیوا مصیبت لاحق تھی۔اس لیے ہم نے بھی حضرت خضر علیہ السلام سے رہنمائی کے حصول کے لیے تپسیا کی ٹھان لی۔بہتے پانی کی سہولت ہمارے اپنے گھر کی نالی کی صورت میں موجود تھی۔اس تپسیا کے لیے صحن غیر محفوظ جگہ تھی کہ امی جان کسی بھی وقت کنویں سے پانی بھرنے یا ہٹی(دوکان) سے سودا سلف لانے بھیج سکتی تھیں۔ہماری نظر انتخاب اپنی دادی اماں یعنی بی جی کے کمرے پر پڑی۔یہ ؑعصر سے کچھ پہلے کا وقت تھا۔بی جی محو قیلولہ تھیں۔ہم دبے پاؤں ان کے کمرے میں داخل ہوئے چپکے سے ان کے کمرے کے فرش پر موجود سیمنٹ کی سلیب سرکائی ۔درمیانے درجے کے بہاؤ کے ساتھ بہتے پانی کا نظارہ ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ہم آلتی پالتی مار کر دھانے پر بیٹھ گئے۔پس منظر میں غیر ہموار نالی میں پانی کے بہنے کا شور اور تصور میں حضرت خضر علیہ السلام کا نورانی سراپا۔

اب ذرا درپیش مسئلے کا بھی ہلکا سا تعارف ہو جائے۔اسکول جاتے ہوئے ہمیں کئی ماہ گزر چکے تھے۔اسکول کی حد تک پیش آنے والی مشکلات کو ہم اپنی خداد صلاحیتوں کی بدولت سنبھال چکے تھے۔لیکن موسم گرما سے موسم سرما میں قدم رکھتے ہی ہم پر انکشاف ہوا کہ نام نہاد تعلیم کی آڑ میں ہماری شاہانہ زندگی پر شب خون مارا گیا ہے۔اسکول جانے سے قبل ہماری حیثیت مخدوم کی سی تھی۔صبح اس وقت کا نام ہوتا جب ہماری آنکھ کھلتی۔ہماری کوشش ہوتی تھی کہ سویرے نہ اٹھیں کہ ظالم سماج کا ناشتہ خوری والا سفاک منظر ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔امی جان صبح اور سہ پہر میں گاؤں کے بچے بچیوں کو ناظرہ قرآن کی تعلیم دیتی تھیں ۔صبح کی کلاس والوں کا جیسے ہی رش لگتا ہم امی جان کا دھیان بٹا ہوا دیکھ کر بغیر منہ ہاتھ دھوئے ناشتے کے لیے کود پڑتے۔کبھی کبھار رنگے ہاتھوں گرفتار بھی ہو جاتے اور امی جان کٹھی کے کنارے ہمارے انتہائی نازک اور حساس چہرے کی جلد کو ظالم لائف بوائے کی مدد سے مل مل کر ہمارا منہ دھونے کے بہانے ہم پر تشدد کرتیں۔

جب سے ہم نے اسکول جانا شروع کیا تھا امی جان نے ناشتے کی فراہمی کو منہ دھلائی اور ڈنٹونک کی کلیوں کے ساتھ مشروط کر دیا تھا۔ڈنٹونک کے استعمال پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ وہ میٹھا ہوتا تھا لیکن ہری پور کے نومبر،دسمبر اور جنوری میں صبح سویرے بہتی نالی کے کنارے منہ دھونا ایسا ہی تھا جیسے کوئی فوجی کمانڈو سردی برداشت کرنے کی تربیت لے رہا ہو۔

کٹھی یعنی نالی کی چوڑائی تقریباً ڈیڑھ فٹ تھی اور گہرائی تقریباً دو فٹ۔دو چار بار ایسا بھی ہوا کہ جب نالی میں پانی کا بہاؤ کم ہونے کی وجہ سے پنجوں کے بل چلو بھرنے کی کوشش میں ہم سر کے بل نالی میں جا گرے۔ایسے گرنے کا صرف ایک ہی فائدہ ہوتا تھا کہ منہ یک لخت ہی دھل جاتا تھا اور ٹھنڈک کے خوف سے دل کو دھڑکنا نہین پڑتا تھا۔خیر وقت واقعی سب سے بڑا استاد ہو تا ہے۔نالی میں پانی کم ہونے کی صورت میں ہم سینے کے بل لیٹ کر ایک ہاتھ سے پانی لینا بھی سیکھ چکے تھے۔روزانہ ہماری پہلی کوشش یہی ہوتی کہ ڈنٹونک کی کلی کے بعد ہاتھ ذرا سا گیلا کر اپنے منہ پر مل لیتے اور ٹھٹھرنے کی اداکاری کرتے ہوئے امی جان سے ناشتہ طلب کرتے۔لیکن ہماری بدقسمتی کہ بہن بھائیوں میں چھٹا نمبر ہونے کی وجہ سے یہ سارے ٹوٹکے زائد المیعاد ہو چکے تھے۔

جس وقت ہم نے ہوش سنبھالا دادی اماں یعنی بی جی اپنی زندگی کی تقریبا75 بہاریں دیکھ چکی تھیں۔بیداری کے عالم میں ہم نے ان کو یا تو مصلے پر دیکھا یا ہمارے قد کے برابر تسبیح رولتے۔بعض اوقات قیلولہ بھی کر لیتی تھیں۔ہم سب بھائیوں کے انہوں نے حسب کردار نام رکھے ہوئے تھے۔کسی کو وہ صوفی کہہ کر پکارتی تھیں اور کوئی ان کی نظر میں سلطانہ ڈاکو تھا۔دادی اماں کے کمرے میں ہم صرف اس وقت جاتے تھے جب ان کی خدمت میں کھانا رکھا جاتا تھا۔جس دن گھر میں گوشت یا دیسی مرغی پکتی تھی اس دن تو ان کے کمرے کا ماحول دیدنی ہوتا تھا۔اس وقت ہمارے نزدیک بی جی یعنی دادی اماں دنیا کی منصف ترین ہستی تھیں کیونکہ وہ بڑی عمر کے اراکان کابینہ کو ایک آدھ لقمہ کھلا کر ٹہلا دیتی تھیں اور ہم پلیٹوں کے چمکنے تک ان کی چارپائی کا سہارا لیے ان کے ساتھ پچک پچک کرتے اپنا رزق سمیٹتے رہتے۔

کھانے کے وقت کے علاوہ ہم بی جی کے کمرے کے سامنے بھی نہیں پھٹکتے تھے۔اکثر شارٹ کٹ کے چکر میں ہم ان کے کمرے کے سامنے سے دبے پاؤں گزرتے دھر لیے جاتے۔ایک گرجدار آواز ہمیں ہمارے لیے مخصوص عرفیت سے پکارتی اور ہم کسی معمول کی طرح کچے دھاگے سے بندھے ان کے سرھانے جا کھڑے ہوتے۔وہ اپنے ہاتھ ہمارے ہاتھوں میں دے دیتیں اور ہاتھوں میں درد کا بہانہ کر کے ہم سے اپنے ہاتھ دبوانے کا مطالبہ کرتیں۔تفکر اور تدبر تو جیسے ہماری گھٹی میں شامل تھا۔ہم ان کے بوڑھے استخوانی ہاتھوں کے ساتھ اپنے ننھے منے نرم و نازک ہاتھوں کا موازنہ شروع کر دیتے۔ان کی کلائی کے اوپر سے ان کی جلد کی جھلی چٹکی میں بھر کر اٹھا لیتےاور یہی حرکت اپنی جلد کے ساتھ بھی کرتے ۔لیکن ہماری صحت مند جلد جھلی سے محروم تھی۔ہمارا بی جی سے یہ سدا بہار سوال ہوتا تھا کہ آپ ایسی کیسے ہیں اور ہم ایسے کیوں ہیں۔بی جی کے چہرے پر شفیق مسکراہٹ پھیلتی اور وہ بھی کسی سائنسدان کی طرح ہم پر اپنے علم کا رعب جھاڑتیں کہ بیٹا جس بازو میں گوشت نہیں ہوتا وہ میرے جیسا ہوتا ہے اور جس میں گوشت ہوتا ہے وہ آپ کے جیسا۔ہمارا اگلا سوال ہوتا کہ آپ کے بازو میں گوشت کیون نہیں ہے تو وہ بولتیں کہ جس دن گوشت پکتا ہے میری پلیٹ سے بھی سارا گوشت تم کھا جاتے ہو اس لیے میرے بازو پر صرف یہ جھلی رہ گئی ہے۔ایک لمحے کے لیے ہم سنجیدہ ہو جاتے اور عہد کرتے کہ آئیندہ بی جی کے کھانے میں سے کبھی نہیں کھائیں گے۔اگلا موقعہ آتے ہی گوشت پھر جیت جاتا۔

ہم آلتی پالتی مارے حضرت خضر علیہ السلام کا انتظار کر رہے تھے۔ہمارے معاصرین اولیا میں سے چند ایک نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ جب اسی طرح بیٹھے تھے تو حضرت خضر علیہ السلام اچانک ان کے پہلو میں آ موجود ہوئے تھے۔ ہم بھی وقفے وقفے سے امید بھری نگاہون سے اپنے دائیں بائیں دیکھ رہے تھے۔ایک طرف یہ خوف بھی تھا کہ بی جی کی آنکھ کھل گئی تو ڈانٹ کے ساتھ ساتھ ان کے ہاتھ بھی دبانے پڑیں گے۔کمرے میں ہلکی روشنی تھی۔کبھی کبھار ہم نالی میں بہتے پانی کو بھی دیکھ لیتے تھے۔ایسے ہی کسی لمحے ہم نے کٹھی یعنی نالی کے اچھلتے کودتے پانی پر درمیانے سائز کی ایک رنگ برنگی گیند کی جھلک دیکھی۔قوت فیصلہ کے معاملے میں اللہ نے ہمیں خوب نوازا ہے جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ہمیں خوب معلوم تھا کہ اس نازک لمحے میں ہمیں کیا کرنا ہے۔مراقبہ برائے وصال حضرت خضر علیہ السلام کو ہم نے الوداعی سلام کہا اور دوسرے ہی لمحے ہم کسی سانپ کی طرح نیم روشن نالی مین رینگ گئے جو ذرا آگے جا کر مکمل تاریک ہو گئی تھی۔ہمیں معلوم تھا کہ ہمارے گھر کے بعد یہ نالی صرف ایک گھر سے گزرتی ہے اور اس کے بعد کھیتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔پانی کا بہاؤ درمیانے درجے کا تھا اس لیے ہمیں اپنے ہاتھوں کے بل رینگنا پڑ رہا تھا۔بی جی کے کمرے کے فوراً بعد دوسرے گھر کا صحن تھا۔کمرہ ختم ہونے پر سر تا پاؤں پانی میں بھیگے ہم اچھل کر نالی سے نکلے تو ہماری پڑوسن اماں جو گھر میں اکیلی رہتی تھیں اور اس وقت صحن کے وسط میں نالی پر برتن دھو رہی تھیں ڈر کے مارے برتن چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئیں۔لیکن دوسرے ہی لمحے معاملے کو سمجھتے ہی وہ غصے میں چیختی ہوئی ہمارے پیچھے لپکیں۔اس وقت تک ہم چند قدم کے فاصلے پہ پانی پر اچھلتی کودتی گیند کو دیکھ چکے تھے۔پھر کس کی مجال تھی کہ ہمیں پکڑ سکتا۔ہم نے سلائیڈ کرتے ہوئے نالی کے کنارے سینے کے بل لیٹ کر گیند کو گرفتار کیا اور کروٹ لیتے ہوئے یہ جا وہ جا۔گیند ہم نےریورس سوئنگ ٹیکنیک کی مدد سے اپنی شلوار میں اڑس لی تھی۔اذان مغرب تک ہم ہم اپنے ہم جولیوں کے ساتھ اچھل کود کرتے رہے تا کہ کپڑے خشک ہو جائیں۔گیند ہم نے کسی دوست کو بھی نہیں دکھائی۔گاؤں چھوٹا سا تھا کوئی پہچان لیتا تو ساری محنت ضائع ہو جاتی۔اگلے مرحلے میں ہم نے گیند کو رنگ کر اس کا حلیہ بدلنا تھا۔اور گھر میں رکھے جس رنگ کے ڈبے کا ہم نے جنازہ نکالنے کا سوچا تھا اس کی قیمت میں شاید ایسی بیس عدد گیندیں آ جاتیں۔گیند ملنے کی خوشی میں ہم آنے والی سرد صبح میں درپیش تکلیف دہ منہ دھلائی کو بھی بھول چکے تھے۔جس وقت ہم گھر پہنچے اس وقت ہماری عقبی پڑوسن اماں ہمارے گھر سے نکل رہی تھیں۔بی جی یعنی دادی اماں کے کمرے میں سرکی ہوئی سیمنٹ کی سلیب کی شہادت ہمارے جرم کی تصدیق کے لیے کافی تھی۔باقی آپ سمجھدار ہیں آپ نے بھی بچپن دیکھا ہے آپ کو کیا سمجھانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

LinkWithin

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...