بدھ، 30 اپریل، 2014

مزدور کی عید


یکم مئی ۔۔۔۔ یوم مزدور """ مزدور کی عید ""
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چار جوڑے کپڑوں کے
چار جوڑے جوتوں کے
تھوڑی چینی تھیلی میں
ایک پیکٹ کھیر کا
ایک ڈبہ دودھ کا
دس یا بیس والی ہو
ایک گڈی نوٹوں کی
کل وزن بتاؤ تو
کتنا ان کا بنتا ہے
ہلکے پھلکے تھیلے میں
ڈال دو تو آئے گا
جس قدر یہ ساماں ہے
اگلے پچھلے خرچوں کو
آگے پیچھے کر کے بھی
تھیلا چار چیزوں کا
مجھ سے بھر نہیں پاتا
عید جیسے ہوتی ہے
ویسے کر نہیں پاتا
روز جو اٹھاتا ہوں
بوجھ وہ ٹنوں میں ہے
تھیلا چار چیزوں کا
میں اٹھا نہیں پاتا
پہلی بار دیکھا ہے
غم تو ہلکے ہوتے ہیں
خوشیاں بھاری ہوتی ہیں
خوشیاں بھاری ہوتی ہیں
:::::::::::::::::::::::::::::
عابی مکھنوی

منگل، 29 اپریل، 2014

یکم مئی۔۔۔۔یومِ مزدور


کسی رنگ ساز کی ماں نے کہا بیٹا اُٹھو نا۔۔ ناشتہ کرلو
کہ قسمت میں لِکھے دانوں کو چُگنے کے لئے بیٹا
پرندے گھونسلوں سے اُڑ چکے ہیں تم بھی اُٹھ جاؤ
خُمارِ نیند میں ڈُوبا ہوا بیٹا تڑپ اُٹھا
ارے ماں آج چُھٹی ہے ذرا سی دیر سونے دے
مِر ی آنکھوں کے تارے کون سی چُھٹی بتا مُجھ کو۔۔؟؟
ارے ماں!! آج دُنیا بھر میں مزدوروں کا چرچا ہے
میں پچھلے سال بھی گھنٹوں برش لے کر تو بیٹھا تھا
کوئی بھی آج کے دِن ہم کو مزدوری نہیں دیتا
میں پیدل چل کے چورنگی پہ جا بیٹھوں گا لیکن ماں!!
تِرے تو عِلم میں ہو گا کہ پیدل چلنے پِھرنے سے
تِرے اِس لال کو اے ماں غضب کی بھوک لگتی ہے
تو بہتر ہے مُجھے تُو ناشتہ کُچھ دیر سے دے دے
صبح دِن رات کے ہم تین کھانے روز کھاتے ہیں
جو آٹا دِن کی روٹی کا بچے گا رات کھا لیں گے
یہ مزدوروں کا دِن ہے اِس پہ مزدوری نہیں مِلتی
ذرا سی دیر سونے دے مُجھے بھی دِن منانے دے!!!!
 
۔۔۔۔۔عابی مکھنوی۔۔۔۔

بدھ، 16 اپریل، 2014

تھر ۔۔ اللہ کی قدرت کا شاہکار



تھر ۔۔ اللہ کی قدرت کا شاہکار

میں جب بیکار لمحوں کی
تھکاوٹ سے کبھی تھک کر
کہیں گِرنے کو ہوتا ہوں
تو رب میرا مِری آنکھوں کے آگے پھر
کسی صحرا کا جلتا تپتا موسم بھیج کر بے جان جسم و جاں کو تازہ دم سا کر کے
مجھے پھر سے اُٹھاتا ہے
ہوا لُو جیسی ہو بھی تو
صبا جیسی وہ لگتی ہے
سفر کٹتے ہیں پل بھر میں
تھکاوٹ روٹھ جاتی ہے
پھٹے میلے سے کپڑوں میں
مقید من کے سچے اور اُجلے دل کے مالک
کچی گلیوں کے وہ باسی
جن سے مل کر میں نے سیکھا ہے
خدا کی رحمتیں اُس کے غضب پہ بھاری ہوتی ہیں
جہاں بارش نہیں ہوتی وہاں بھی ہے وہی رازق
جہاں سبزہ نہیں اُگتا وہاں بھی لوگ جیتے ہیں
یہ اُس کی حکمتیں ہیں وہ جہاں چاہے بساتا ہے
اُسی کے بس میں ہے عابی اُسی کو بس یہ بھاتا ہے
قسم لے لو اکیلا ہے جو بِن مانگے کھِلاتا ہے
وہ بِن مانگے کھِلاتا ہے
وہ بِن مانگے کھِلاتا ہے

عابی مکھنوی

جمعرات، 10 اپریل، 2014

میں ظلمت کا جنازہ دیکھ آیا ہوں


تجھے فرصت نہیں ہے رونے دھونے سے
میں ظلمت کا جنازہ دیکھ آیا ہوں

ہوا کا زور چلتا تو کہاں رہتا
دیے کو میں دوبارہ دیکھ آیا ہوں

عابی مکھنوی

LinkWithin

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...