بدھ، 22 جنوری، 2014

پہلا سبق ۔ ۔ ۔ ۔ دوسری ٹن ٹن




پہلا سبق ۔ ۔ ۔ ۔ دوسری ٹن ٹن

مصنف:عابی مکھنوی

یہ 1981 یا 1982 کی بات ہے۔یہ وہ زمانہ تھا کہ جب پانچ یا چھ سالہ لڑکے کے لیے پورے کپڑے پہننا اور مٹی نہ کھانا تہذیب کی معراج سمجھی جاتی تھی۔ابھی مٹی کا ذائقہ پھیکا بھی نہ پڑا تھا کہ ہمیں ملیشیا یونیفارم میں ڈال کر پڑوسی گاؤں میں واقع پرائمری اسکول کے قصائی صفت اساتذہ کو ہدیہ کر دیا گیا۔ہمیں ملیشیا کے نئے یونیفارم کو پہننے سے زیادہ سونگھنے میں مزہ آ رہا تھا۔اپنے اسکول کے پہلے دن کو یاد رکھنے کا دعویٰ کوئی جھوٹا ہی کر سکتا ہے۔اسی لیے ہم نے آج تک سچا ہونے کا دعویٰ کبھی نہیں کیا۔ پہلی خوشی ہمیں اس وقت ملی جب ہمارا ناشتے کا نمبر بدلا۔دس بہن بھائیوں میں پہلا نمبر شہر کے اسکولوں میں پڑھنے والوں کا ہوتا تھا۔جن کی حیثیت ہمارے لیے ظالم سماج سے کم نہ تھی ۔وہ توے سے اترنے والے گرما گرم پراٹھے ہوا میں ہی اچک لیتے۔غڑپ غڑپ کی آواز کے ساتھ دیگچی سے چائے کے کپ بھرتے اور حاکمانہ انداز میں ہم پر نظریں جمائے،گردن اکڑائے ناشتہ کرتے جاتے۔دوسرا نمبر گاؤں کے اسکول والوں کا اور تیسرا نمبر مٹی خور ان پڑھ عوام کا۔ہم نے بھی اپنے سینیئرز سے تکبر کا درس لینے میں ذرہ برابر کنجوسی کا مظاہرہ نہ کیا۔بلکہ دو قدم آگے بڑھتے ہوئے ہم نے چولھے کے گرد دائرہ کھینچ دیا کہ جن کا ابھی تعلیم سے رشتہ طے نہیں ہوا ان کو کوئی حق نہیں کہ وہ ہماری موجودگی میں چولھے کے گرد بھی پھٹکیں۔

عدلیہ یعنی امی جان کی طرف سے پراٹھوں کی حد دو عدد سے بڑھ کر حسب گنجائش ہو چکی تھی۔البتہ چائے کی مقدار ہنوز دو کپ پر قائم تھی۔ایک اضافی پراٹھہ آلو یا ساگ کے سالن کے ساتھ بغرض تفریح اخبار میں لپیٹ کر ہمارے حوالے کیا گیا۔بستہ امی جان نے خود گھر میں سیا تھا۔جس میں ایک خانہ کتابوں کے لیے اور دوسرا ہماری خوراک سے متعلق تھا۔آنے والے سالوں میں ہم نے اپنی تخریبی کاروائیوں کی بدولت پورا بستہ خوراک کے خانے میں تبدیل کر دیا کتابیں ہم ہاتھ میں تھام لیتے تھے۔اسکول جانے کے خواب ہم اپنے دور جاہلیت سے ہی دیکھ رہے تھے۔ظالم سماج یعنی بڑے بہن بھائیوں نے ہمیں اسکول کے اندرونی حالات سے ہمیشہ بے خبر رکھا۔ سچ نہ پوچھیں تو وہ ایک خوشگوار صبح تھی۔مکئی کی فصل اپنے جوبن پر تھی۔تا حد نگاہ پھیلے کھیتوں میں ہم سے دگنے قد کی مکئی کے ٹانڈے نشیلی ہوا کے سرور کے زیر اثر جھوم رہے تھے۔اللہ ہی جانتا ہے کہ ان پر ہوا کا نشہ تھا یا وہ ہمارے انجام پر مست ہو رہے تھے۔ہمارے بھائی جان جو اس وقت چوتھے درجے کے قیدی تھے وقفے وقفے سے ہمیں ایسے ہانکا لگا رہے تھے جیسے بیوپاری جمعرات کی منڈی کے لیے بکروں کو لے کر جاتا ہے۔برابری کے احساس نے ہماری چال میں بھی بے پباہ اعتماد بھر دیا تھا۔آخر بیس سے پچیس منٹ پر مشتمل یہ پیدل سفر اپنے انجام کو پہنچا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ملیشیا کے تھیلوں میں ملبوس سینکڑوں بچے اچھل کود کر رہے تھے۔زیادہ افرا تفری ہمارے اپنے سائز کے بچوں میں تھی۔اس سے اوپر کے تمام سائز نسبتاً سنجیدہ نظر آ رہے تھے۔ہمارے معاصرین کے ہاتھوں میں نئی نویلی لکڑی کی تختیاں لہرا رہی تھیں۔پرانے پاپڑ تھوڑے تھوڑے وقفے سے اپنی تختیوں کا جائزہ لے رہے تھے۔کہیں کہیں دو دو کی ٹولیاں نظر آئیں جن میں سے ایک جلدی جلدی دوسرے کی تختی سے دیکھ کر سرکنڈے کے قلم سے کچھ چھاپ رہا تھا۔مربع شکل کے میدان کے دو مخالف کونوں پر دو کھنڈر نما کمرے کھڑے ایک دوسرے کو گھور رہے تھے۔گھر سے اسکول تک کی صحت افزا فضا کے قابلے میں اسکول کی فضا گرد و غبار سے اٹی پڑی تھی۔چار چار پانچ پانچ لڑکوں پر مشتمل ٹیمیں مخصوص مقامات پر ٹاٹ کو جھاڑ کر بچھا رہی تھیں۔چند کالے بورڈ جنازے کی صورت میں لائے جا رہے تھے۔کوئی تین ٹانگوں والے اٹکاؤ کو نصب کر رہا تھا۔

بھائی جان کے چہرے پر عجیب زہریلی مسکراہٹ پھیلی تھی۔جیسے آج کا دن ہماری طرف سے ان کے خلاف کی جانے والی تمام چغلیوں کے جواب میں انتقام کی تکمیل کا دن ہو۔بظاہر شفقت سے ہمارے کندھے پر ہاتھ رکھے وہ ہمیں ایک الگ تھلگ کونے میں لے گئے۔ان کا انداز ایسا تھا جیسے کوئی قصائی کسی صحت مند جانور کو بہلا پھسلا کر کمیلے میں لے کر جاتا ہے۔ ابھی ہم نے سلیقے سے بچھے ٹاٹ پر اپنا بستہ رکھا ہی تھا کہ ٹن ٹن کے شور نے ماحول میں تلاطم بپا کر دیا۔چند لمحوں میں بکھرا ہوا ہجوم کسی فوجی پلاٹون کا منظر پیش کرنے لگا۔ہمیں اب تک کے تمام مناظر بہت اچھے لگ رہے تھے۔پلاٹون کے تمام فوجی اپنے اپنے درجوں میں ترتیب سے خاموش کھڑے تھے۔ادھر چوتھے درجے کے چار عدد جلاد صفت بدمعاش ہم رنگروٹوں کے سروں پر مسلط تھے۔انہوں نے انتہائی بد تنیزی سے ہمیں پکڑ پکڑ کر ٹاٹ پر بٹھایا کہ ابھی تمھاری یہی جگہ ہے۔ہوشیار اور آسان باش کی کڑکدار صدا پر ہمارے بزرگ اپنے پاؤں سے دھرتی کا سینہ کوٹ رہے تھے۔شلوار قمیص میں ملبوس چند انکل پلاٹون کے سامنے کھڑے یہ سارا تماشا دیکھ رہے تھے۔ایک اور انکل کو ہم نے دیکھا کہ وہ وقفے وقفے سے کسی نہ کسی بزرگ کی گدی پر ایک تھپڑ رسید کرتے اور وہ بے چارہ لہرا کر دوبارہ اور زور و شور سے گرجتی صدا پر اپنے پاؤں پٹخنے لگتا۔آنے والے دنوں میں ہم پر انکشاف ہوا کہ اس اجتماعی مظاہرے کو اسمبلی کہا جاتا ہے۔ ادھر چاروں جلاد ہماری چار قطاروں میں پنجوں کے بل بیٹھے ہمارے بستوں کوایسے ٹٹول رہے تھے کہ جیسے ان کو مخبری ہوئی ہو کہ یہ نووارد چوزے چرس کے اسمگلر ہیں۔ہم نے دیکھا کہ ان کی دلچسپی کا مرکز خوراک والا خانہ ہے۔وہ گھی میں لتھڑے اخبار کو کھولنے کی زحمت بھی نہیں کر رہے تھے۔اوپر سے ہی آدھا کرتے آدھا واپس رکھتے اور آدھا اپنی بغلی جیبوں میں ٹھونس دیتے۔ہم اس غنڈہ گردی کو بھی اسمبلی کا حصہ سمجھ کر تماشہ دیکھ رہے تھے۔اسمبلی کے اختتام کے ساتھ ہی ایک ہیرو ٹائپ انکل ماتھے پر پف سجائے ہمارے سامنے کرسی پر براجمان ہو گئے۔وہ باری باری ایک ایک چوزے کا رجسٹر سے نام پکارتے۔اپنے پاس بلاتے،اس کا بستہ منگواتے،کتابوں تختی اور لوہے کی سلیٹ کا جائزہ لیتے اور شفقت سے گال سہلا کر واپس بٹھا دیتے۔پدرانہ شفقت کے اس عظیم الشان مظاہرے کو دیکھ کر تو جیسے ہمیں پر ہی لگ گئے۔

تشنج کی کیفیت رفع ہوئی اور ہم نے اپنے بستے کےخوراک والے خانے سے من و سلویٰ نکال کر بستے پر رکھ لیا۔ابھی ہم نے پراٹھے کا لقمہ منہ میں رکھا ہی تھا کہ ہمارا بلاوا آگیا۔ہم پراٹھا چباتے ہوئے ایک ہاتھ میں بستہ اور دوسرے میں من و سلویٰ تھامے ہیرو انکل کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ہمارے حساب سے پہلے ان کو ہماری تختی اور سلیٹ چیک کرنی تھی،پھر کتابیں۔ہم من و سلویٰ بغل میں دبا کر بستہ کھولنے ہی لگے تھے کہ ایک لہراتا ہوا تھپڑ ہمارے بائیں گال پر پڑا۔ہم نے بمشکل منہ میں موجود لقمے کو باہر کی بجائے اندر کی طرف پھینکا۔جھٹکے کی وجہ سے بغل میں دبا چکنائی سے لبریز اخبار کا پیکٹ پھسل کر دور جا گرا۔چونکہ ہم عمر کے اس حصے میں تھے کہ جب خوراک ہی اولین نصب العین ہوتا ہے لہذا ہم نے جھپٹ کر اپنا پیکٹ اٹھا لیا۔لیکن دوسرے ہی لمحے پیکٹ پھر ہمارے ہاتھ سے غائب تھا۔جی ہاں اب پیکٹ ہیرو انکل کے ہاتھ میں تھا۔ہیرو انکل نے پیکٹ دوبارہ خوراک والے خانے میں رکھتے ہوئے ہمیں سمجھایا کہ پیٹ پوجا کی اجازت صرف دوسری ٹن ٹن پہ ہے۔ دوسری ٹن ٹن کے انتظار میں باقی وقت ہم نے ساگ اور پراٹھے کے ذرات زبان کی مدد سے دانتوں سے نکال نکال کر چباتے گزارا۔اس دوران ہم نے اپنے دائیں بائیں ہولناک مناظر کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ دیکھا۔آٹھ آٹھ دس دس کی ٹولیوں میں کہیں ملیشیا میں ملبوس مرغے دائرے میں گھوم رہے تھے اور کہیں قطار میں چل رہے تھے۔کوئی ہاتھ زمین پر اور پاؤں دیوار پہ ٹکائے مراقبے میں مصروف تھا۔سب سے خوفناک منظر جہاز کا تھا۔ہمارے ایک بزرگ کو اس کے چار مطلبی دوستوں نے بازؤں اور پاؤں سے پکڑ کر ہوا میں الٹا معلق کر رکھا تھا اور ایک انکل چھڑی سے اس کی خبر لے رہے تھے۔خوف کی شدت سے ہم بھی ایک لمحے کے لیے اپنے من و سلویٰ کو بھول گئے۔باقی انکل کالے بورڈوں پر سفید رنگ سے کچھ کیڑے مکوڑے بنا رہے تھے۔تختیاں اسکول کے پہلو میں بہنے والی نالی پر دھوئی جا رہی تھیں اور وہیں ایک دوسرے کے کندھے تھامے خشک ہو رہی تھیں۔

ہمارے پیٹ کے چوہے سر اٹھا اٹھا کر پوچھ رہے تھے کہ دوسری ٹن ٹن کب ہو گی۔ہم بھی مسلسل خوراک والے خانے کو گھورے جا رہے تھے۔ہمارے سامنے بھی ہیرو انکل کچھ ٹیڑھا میڑھا لکھتے اور پھر اونچی آواز میں ہم سے نعرے لگواتے الف ۔ ۔ ۔ ۔ بے۔ ۔ ۔ پے ۔۔ ۔ ۔ ۔۔الف ۔ ۔ ۔ ۔بے ۔ ۔ ۔ ۔ پے ۔۔۔۔۔۔ چیخ چیخ کر ہمارا حلق سوکھ چکا تھا۔اللہ بھلا کرے ٹن ٹن کا کہ وہ ہو گئی۔ہم نے اپنا ہاتھ خانے کے قریب ہی بچھا رکھا تھا۔ہمارے بھائی جان جس وقت ہم سے پوچھنے آئے کہ ہم نے کچھ کھایا ہے یا نہیں اس وقت تک ہم اپنے پہلو میں بیٹھے ایک چوزے سے دوستی گانٹھ کر دوستی کے ثبوت کے طور پر اپنے منہ کا ذائقہ بھی بدل چکے تھے۔کچھ چوزے جن کے بڑے بھائی اسکول میں نہیں تھےمنہ بولے بھائیوں کی شفقت کے عوض اپنا من و سلویٰ بانٹ رہے تھے۔ہم نے بھائی جان سے مطالبہ کیا کے گھر چلو۔بھائی جان کی زہریلی مسکراہٹ نے ایک بار پھر ہمارا استقبال کیا۔انہوں نے ہمارا گال سہلاتے ہوئے انکشاف کیا کہ گھر ہم تیسری ٹن ٹن کے بعد ہی جا سکتے ہیں۔یعنی ابھی ہمیں مرغوں کی مزید چہل قدمی اور جہاز کی کچھ اور پروازوں کا مشاہدہ کرنا تھا۔ہمارے معصوم دماغ نے فتویٰ دیا کہ اسکول سے اچھا تو ہمارا باغ ہے۔جہاں ہم اپنی مرضی سے جب چاہیں آلوچے،خوبانیاں اور لوکاٹیں کھا سکتے ہیں۔ہماری یاداشت دوسری اور تیسری ٹن ٹن کے درمیان ہونے والے واقعات کی تفصیلات بتانے سے قاصر ہے۔بس اتنا یاد ہے کہ تیسری ٹن ٹن کے ساتھ ہی بھائی جان اپنی دھلی ہوئی تختی لہراتے ہمارے سر پر آن دھمکے اور ہمارا گھر کی طرف واپسی کا سفر شروع ہو گیا۔ سرسبز کھیوں کی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے ہمیں محسوس ہوا کہ مکئی کے ٹانڈے لپک لپک کر ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں۔گھر پہنچتے ہی ہم نے بستہ اور تختی پٹخ کر امی جان سے کھانے کا مطالبہ داغ دیا۔مکئی کی روٹی پر مکھن کا پیڑا جماتے ہوئے امی جان نے ہم سے دریافت کیا کہ آج ہم نے اسکول میں کیا سیکھا۔ہم نے کسی تعلیم یافتہ انسان کی طرح ماتھے پر شکنوں کا جال تانتے ہوئے امی جان کو بتایا کہ آج ہیرو انکل نے ہمیں سکھایا ہے کہ دوسری ٹن ٹن سے پہلے ہم کچھ نہیں کھا سکتے۔امی جان نے ہمارا ماتھا چومتے ہوئے ہمارے علم کی داد دی ۔۔۔۔۔۔اور خلاف معمول مکھن،مکئی کی روٹی کے ساتھ ساتھ دیگر لوازمات ہرے مصالحے کی چٹنی،تازہ ساگ اور لسی کا جگ بھی ہماری طرف سرکا دیا ۔ ۔ 

 

منگل، 21 جنوری، 2014

وہ کھٹے میٹھے دن



 وہ کھٹے میٹھے دن   از::  عابی مکھنوی




گاؤں کے سادہ لوح باسی ابھی اتنے مہذب نہیں ہوئے تھے کہ گھروں کے بیچوں بیچ بہنے والی آبپاشی کی نالیوں کو بطور گٹر استعمال کرتے۔اس لیے گھر کے برتن اور منہ ہاتھ وسط صحن سے گزرنے والی پڑک پڑک کرتی نالی پر ہی پورے اعتماد کے ساتھ دھوئے جاتے تھے۔

اردو میں پانی کی نالی بہت چھوٹی نالی کو کہتے ہیں۔جس نالی کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ نالی نہین ""کٹھی """ تھی۔نالی اور کٹھی کے سائز میں وہی فرق ہوتا ہے جونالی اور نلکی کے سائز میں ہوتا ہے۔چونکہ ہمیں کٹھی کے لیے اردو کا لفظ معلوم نہیں اس لیے گھر کی کٹھی کو نالی ہی کہیں گے۔

ہمارے لیے گھر کے وسیع و عریض صحن سے گزرنے والی آبپاشی کی نالی قدرت کا عظیم تحفہ تھی۔بل کھاتی ناگن کی طرح یہ نالی صحن سے ہوتی ہماری دادی اماں (جن کو ہم سب پیار سے ""بی جی "" کہہ کر پکارتے تھے)کے کمرے کے نیچے سے گزرتی تھی۔ہمارے گھر تک پہنچنے سے پہلے یہ نالی تقریباً ایک درجن سے زائد گھروں کے مکینوں کی امانت کا امتحان لیتی تھی۔اس میں درمیانے درجے کا بہاؤ تو تقریباً سارا سال ہی رہتا لیکن جب کبھی کوئی کسان بھائی اپنے کھیت کے لیے پانی باندھ کر لاتا تو تیز بہتے پانی کی وجہ سے گھر ایک مدھر جلترنگ سے گونج اٹھتا۔جی ہاں دنیا میں صرف ہزارہ ہی ایسی جگہ ہے جہاں کے لوگ پانی کو بھی باندھ سکتے ہیں باقی دنیاتو پانی کے بند باندھتی ہے۔

اس زمانے میں فتویٰ بازی بچوں میں بھی اتنی ہی مقبول تھی جتنی آج کل بڑوں میں ہے۔منتخب فتاویٰ کا تذکرہ حسب موقع ہمارے مضامین میں آتا رہے گا۔فی الوقت جس فتوے کا ذکر ہے وہ ہم نے اپنے کسی ہم عصر مفتی سے سنا تھا کہ حضرت خضر علیہ السلام بہتے پانی کے کنارے پر سائلین سے ملاقات کرتے ہیں اور درپیش مصیبتوں سے چھٹکارے کے لیےان کی رہنمائی فرماتے ہیں۔

ان دنوں ہمیں بھی ایک جان لیوا مصیبت لاحق تھی۔اس لیے ہم نے بھی حضرت خضر علیہ السلام سے رہنمائی کے حصول کے لیے تپسیا کی ٹھان لی۔بہتے پانی کی سہولت ہمارے اپنے گھر کی نالی کی صورت میں موجود تھی۔اس تپسیا کے لیے صحن غیر محفوظ جگہ تھی کہ امی جان کسی بھی وقت کنویں سے پانی بھرنے یا ہٹی(دوکان) سے سودا سلف لانے بھیج سکتی تھیں۔ہماری نظر انتخاب اپنی دادی اماں یعنی بی جی کے کمرے پر پڑی۔یہ ؑعصر سے کچھ پہلے کا وقت تھا۔بی جی محو قیلولہ تھیں۔ہم دبے پاؤں ان کے کمرے میں داخل ہوئے چپکے سے ان کے کمرے کے فرش پر موجود سیمنٹ کی سلیب سرکائی ۔درمیانے درجے کے بہاؤ کے ساتھ بہتے پانی کا نظارہ ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ہم آلتی پالتی مار کر دھانے پر بیٹھ گئے۔پس منظر میں غیر ہموار نالی میں پانی کے بہنے کا شور اور تصور میں حضرت خضر علیہ السلام کا نورانی سراپا۔

اب ذرا درپیش مسئلے کا بھی ہلکا سا تعارف ہو جائے۔اسکول جاتے ہوئے ہمیں کئی ماہ گزر چکے تھے۔اسکول کی حد تک پیش آنے والی مشکلات کو ہم اپنی خداد صلاحیتوں کی بدولت سنبھال چکے تھے۔لیکن موسم گرما سے موسم سرما میں قدم رکھتے ہی ہم پر انکشاف ہوا کہ نام نہاد تعلیم کی آڑ میں ہماری شاہانہ زندگی پر شب خون مارا گیا ہے۔اسکول جانے سے قبل ہماری حیثیت مخدوم کی سی تھی۔صبح اس وقت کا نام ہوتا جب ہماری آنکھ کھلتی۔ہماری کوشش ہوتی تھی کہ سویرے نہ اٹھیں کہ ظالم سماج کا ناشتہ خوری والا سفاک منظر ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔امی جان صبح اور سہ پہر میں گاؤں کے بچے بچیوں کو ناظرہ قرآن کی تعلیم دیتی تھیں ۔صبح کی کلاس والوں کا جیسے ہی رش لگتا ہم امی جان کا دھیان بٹا ہوا دیکھ کر بغیر منہ ہاتھ دھوئے ناشتے کے لیے کود پڑتے۔کبھی کبھار رنگے ہاتھوں گرفتار بھی ہو جاتے اور امی جان کٹھی کے کنارے ہمارے انتہائی نازک اور حساس چہرے کی جلد کو ظالم لائف بوائے کی مدد سے مل مل کر ہمارا منہ دھونے کے بہانے ہم پر تشدد کرتیں۔

جب سے ہم نے اسکول جانا شروع کیا تھا امی جان نے ناشتے کی فراہمی کو منہ دھلائی اور ڈنٹونک کی کلیوں کے ساتھ مشروط کر دیا تھا۔ڈنٹونک کے استعمال پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ وہ میٹھا ہوتا تھا لیکن ہری پور کے نومبر،دسمبر اور جنوری میں صبح سویرے بہتی نالی کے کنارے منہ دھونا ایسا ہی تھا جیسے کوئی فوجی کمانڈو سردی برداشت کرنے کی تربیت لے رہا ہو۔

کٹھی یعنی نالی کی چوڑائی تقریباً ڈیڑھ فٹ تھی اور گہرائی تقریباً دو فٹ۔دو چار بار ایسا بھی ہوا کہ جب نالی میں پانی کا بہاؤ کم ہونے کی وجہ سے پنجوں کے بل چلو بھرنے کی کوشش میں ہم سر کے بل نالی میں جا گرے۔ایسے گرنے کا صرف ایک ہی فائدہ ہوتا تھا کہ منہ یک لخت ہی دھل جاتا تھا اور ٹھنڈک کے خوف سے دل کو دھڑکنا نہین پڑتا تھا۔خیر وقت واقعی سب سے بڑا استاد ہو تا ہے۔نالی میں پانی کم ہونے کی صورت میں ہم سینے کے بل لیٹ کر ایک ہاتھ سے پانی لینا بھی سیکھ چکے تھے۔روزانہ ہماری پہلی کوشش یہی ہوتی کہ ڈنٹونک کی کلی کے بعد ہاتھ ذرا سا گیلا کر اپنے منہ پر مل لیتے اور ٹھٹھرنے کی اداکاری کرتے ہوئے امی جان سے ناشتہ طلب کرتے۔لیکن ہماری بدقسمتی کہ بہن بھائیوں میں چھٹا نمبر ہونے کی وجہ سے یہ سارے ٹوٹکے زائد المیعاد ہو چکے تھے۔

جس وقت ہم نے ہوش سنبھالا دادی اماں یعنی بی جی اپنی زندگی کی تقریبا75 بہاریں دیکھ چکی تھیں۔بیداری کے عالم میں ہم نے ان کو یا تو مصلے پر دیکھا یا ہمارے قد کے برابر تسبیح رولتے۔بعض اوقات قیلولہ بھی کر لیتی تھیں۔ہم سب بھائیوں کے انہوں نے حسب کردار نام رکھے ہوئے تھے۔کسی کو وہ صوفی کہہ کر پکارتی تھیں اور کوئی ان کی نظر میں سلطانہ ڈاکو تھا۔دادی اماں کے کمرے میں ہم صرف اس وقت جاتے تھے جب ان کی خدمت میں کھانا رکھا جاتا تھا۔جس دن گھر میں گوشت یا دیسی مرغی پکتی تھی اس دن تو ان کے کمرے کا ماحول دیدنی ہوتا تھا۔اس وقت ہمارے نزدیک بی جی یعنی دادی اماں دنیا کی منصف ترین ہستی تھیں کیونکہ وہ بڑی عمر کے اراکان کابینہ کو ایک آدھ لقمہ کھلا کر ٹہلا دیتی تھیں اور ہم پلیٹوں کے چمکنے تک ان کی چارپائی کا سہارا لیے ان کے ساتھ پچک پچک کرتے اپنا رزق سمیٹتے رہتے۔

کھانے کے وقت کے علاوہ ہم بی جی کے کمرے کے سامنے بھی نہیں پھٹکتے تھے۔اکثر شارٹ کٹ کے چکر میں ہم ان کے کمرے کے سامنے سے دبے پاؤں گزرتے دھر لیے جاتے۔ایک گرجدار آواز ہمیں ہمارے لیے مخصوص عرفیت سے پکارتی اور ہم کسی معمول کی طرح کچے دھاگے سے بندھے ان کے سرھانے جا کھڑے ہوتے۔وہ اپنے ہاتھ ہمارے ہاتھوں میں دے دیتیں اور ہاتھوں میں درد کا بہانہ کر کے ہم سے اپنے ہاتھ دبوانے کا مطالبہ کرتیں۔تفکر اور تدبر تو جیسے ہماری گھٹی میں شامل تھا۔ہم ان کے بوڑھے استخوانی ہاتھوں کے ساتھ اپنے ننھے منے نرم و نازک ہاتھوں کا موازنہ شروع کر دیتے۔ان کی کلائی کے اوپر سے ان کی جلد کی جھلی چٹکی میں بھر کر اٹھا لیتےاور یہی حرکت اپنی جلد کے ساتھ بھی کرتے ۔لیکن ہماری صحت مند جلد جھلی سے محروم تھی۔ہمارا بی جی سے یہ سدا بہار سوال ہوتا تھا کہ آپ ایسی کیسے ہیں اور ہم ایسے کیوں ہیں۔بی جی کے چہرے پر شفیق مسکراہٹ پھیلتی اور وہ بھی کسی سائنسدان کی طرح ہم پر اپنے علم کا رعب جھاڑتیں کہ بیٹا جس بازو میں گوشت نہیں ہوتا وہ میرے جیسا ہوتا ہے اور جس میں گوشت ہوتا ہے وہ آپ کے جیسا۔ہمارا اگلا سوال ہوتا کہ آپ کے بازو میں گوشت کیون نہیں ہے تو وہ بولتیں کہ جس دن گوشت پکتا ہے میری پلیٹ سے بھی سارا گوشت تم کھا جاتے ہو اس لیے میرے بازو پر صرف یہ جھلی رہ گئی ہے۔ایک لمحے کے لیے ہم سنجیدہ ہو جاتے اور عہد کرتے کہ آئیندہ بی جی کے کھانے میں سے کبھی نہیں کھائیں گے۔اگلا موقعہ آتے ہی گوشت پھر جیت جاتا۔

ہم آلتی پالتی مارے حضرت خضر علیہ السلام کا انتظار کر رہے تھے۔ہمارے معاصرین اولیا میں سے چند ایک نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ جب اسی طرح بیٹھے تھے تو حضرت خضر علیہ السلام اچانک ان کے پہلو میں آ موجود ہوئے تھے۔ ہم بھی وقفے وقفے سے امید بھری نگاہون سے اپنے دائیں بائیں دیکھ رہے تھے۔ایک طرف یہ خوف بھی تھا کہ بی جی کی آنکھ کھل گئی تو ڈانٹ کے ساتھ ساتھ ان کے ہاتھ بھی دبانے پڑیں گے۔کمرے میں ہلکی روشنی تھی۔کبھی کبھار ہم نالی میں بہتے پانی کو بھی دیکھ لیتے تھے۔ایسے ہی کسی لمحے ہم نے کٹھی یعنی نالی کے اچھلتے کودتے پانی پر درمیانے سائز کی ایک رنگ برنگی گیند کی جھلک دیکھی۔قوت فیصلہ کے معاملے میں اللہ نے ہمیں خوب نوازا ہے جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ہمیں خوب معلوم تھا کہ اس نازک لمحے میں ہمیں کیا کرنا ہے۔مراقبہ برائے وصال حضرت خضر علیہ السلام کو ہم نے الوداعی سلام کہا اور دوسرے ہی لمحے ہم کسی سانپ کی طرح نیم روشن نالی مین رینگ گئے جو ذرا آگے جا کر مکمل تاریک ہو گئی تھی۔ہمیں معلوم تھا کہ ہمارے گھر کے بعد یہ نالی صرف ایک گھر سے گزرتی ہے اور اس کے بعد کھیتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔پانی کا بہاؤ درمیانے درجے کا تھا اس لیے ہمیں اپنے ہاتھوں کے بل رینگنا پڑ رہا تھا۔بی جی کے کمرے کے فوراً بعد دوسرے گھر کا صحن تھا۔کمرہ ختم ہونے پر سر تا پاؤں پانی میں بھیگے ہم اچھل کر نالی سے نکلے تو ہماری پڑوسن اماں جو گھر میں اکیلی رہتی تھیں اور اس وقت صحن کے وسط میں نالی پر برتن دھو رہی تھیں ڈر کے مارے برتن چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئیں۔لیکن دوسرے ہی لمحے معاملے کو سمجھتے ہی وہ غصے میں چیختی ہوئی ہمارے پیچھے لپکیں۔اس وقت تک ہم چند قدم کے فاصلے پہ پانی پر اچھلتی کودتی گیند کو دیکھ چکے تھے۔پھر کس کی مجال تھی کہ ہمیں پکڑ سکتا۔ہم نے سلائیڈ کرتے ہوئے نالی کے کنارے سینے کے بل لیٹ کر گیند کو گرفتار کیا اور کروٹ لیتے ہوئے یہ جا وہ جا۔گیند ہم نےریورس سوئنگ ٹیکنیک کی مدد سے اپنی شلوار میں اڑس لی تھی۔اذان مغرب تک ہم ہم اپنے ہم جولیوں کے ساتھ اچھل کود کرتے رہے تا کہ کپڑے خشک ہو جائیں۔گیند ہم نے کسی دوست کو بھی نہیں دکھائی۔گاؤں چھوٹا سا تھا کوئی پہچان لیتا تو ساری محنت ضائع ہو جاتی۔اگلے مرحلے میں ہم نے گیند کو رنگ کر اس کا حلیہ بدلنا تھا۔اور گھر میں رکھے جس رنگ کے ڈبے کا ہم نے جنازہ نکالنے کا سوچا تھا اس کی قیمت میں شاید ایسی بیس عدد گیندیں آ جاتیں۔گیند ملنے کی خوشی میں ہم آنے والی سرد صبح میں درپیش تکلیف دہ منہ دھلائی کو بھی بھول چکے تھے۔جس وقت ہم گھر پہنچے اس وقت ہماری عقبی پڑوسن اماں ہمارے گھر سے نکل رہی تھیں۔بی جی یعنی دادی اماں کے کمرے میں سرکی ہوئی سیمنٹ کی سلیب کی شہادت ہمارے جرم کی تصدیق کے لیے کافی تھی۔باقی آپ سمجھدار ہیں آپ نے بھی بچپن دیکھا ہے آپ کو کیا سمجھانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

LinkWithin

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...