بدھ، 18 دسمبر، 2013

سُنا ہے.....

 

سنا ہے کوئلے کی کان سے ہیرا نِکلتا ہے
 اُٹھو تاریک راتوں سے کوئی سُورج نکالیں ہم

 عابی مکھنوی

آج تُو جیت گیا اور میں ہاری سب کُچھ






موت نے دار پہ لٹکے ہوئے قیدی سے کہا
آج تُو جیت گیا اور میں ہاری سب کُچھ
بانکپن دیکھ کہ بولا یہ بھنور بھی عابی
دُوبنے والے تِری شان پہ واری سب کچھ

عابی مکھنوی

منگل، 10 دسمبر، 2013

مہینے سب برابر ہیں محبت کے فقیروں پر








اُترتا ہے سلیقے سے یہ جذبہ بھی امیروں پر
دسمبر ایک فیشن ہے سجاوٹ کے جزیروں پر

کسی رشتے کا کیا رشتہ بدلتے اس کیلنڈر سے
مہینے سب برابر ہیں محبت کے فقیروں پر

عابی مکھنوی

جمعہ، 6 دسمبر، 2013

اماں جانی



۔۔۔۔۔۔۔۔ اماں جانی ۔۔۔۔۔

نہ جانے کتنے برسوں سے
دبا ہوں میں شکنجے میں
مہینے دھوپ چھاؤں سے
کبھی یہ چار ہفتوں کے
کبھی کچھ چار سے اوپر
شروع کے دو جو ہفتے ہیں
بہت رنگین ہوتے ہیں
نوابی سے فقیری کا
زمانہ ہر مہینے میں
ہمیشہ ساتھ چلتا ہے
دعائیں ماں کی ہوتی ہیں
پسینہ میں بہاتا ہوں
خدا بھی مسکرا کے پھر
مرے حصے کے دانوں کو
مجھے عزت سے دیتا ہے
یہ قصہ ہے مہینے کے
تڑپتے چوتھے ہفتے کا
مری ماں نے محبت سے
سجایا ناشتہ اک دن
میں اپنی جیب میں باقی
بچے پیسوں کو گننے میں
لگا تھا کہ کہا ماں نے
ارے بیٹا مجھے جاتے
ہوئے تم سو روپے دینا
مرے اندر تو لاوا تھا
کہ ہفتہ آخری تھا یہ
تھے جیبوں میں فقط سکے
بھڑک کر میں یوں بولا ماں
نہ جانے کتنے برسوں سے
ہمیشہ چوتھے ہفتے ہی
مجھے تو کیوں ستاتی ہے
کہ پہلے دونوں ہفتوں میں
بچت کا فلسفہ تیری
زباں پر راج کرتا ہے
کبھی پیسے نہیں مانگے
ہمیشہ آخری ہفتے
تجھے سب یاد آتا ہے
مرے رب ماں کا سایہ تو
سبھی کے سر پہ رکھ قائم
مرے لہجے کی تلخی کو
پیا اس نے محبت سے
عجب مسکان چہرے پہ
عجب سا پیار آنکھوں میں
سجائے نکلی کمرے سے
ذرا سی دیر میں لوٹی
تو ہاتھوں میں تھی اک تھیلی
مرے بچے یہ تیرے ہیں
تری میلی قمیصوں سے
جو سکے مجھ کو ملتے تھے
وہ اس میں ہیں
ہمیشہ چوتھے ہفتے میں
جو سو کا نوٹ لیتی تھی
وہ اس میں ہے
کہ پچھلے بارہ سالوں میں
تری محنت پسینے کے
جو قطرے میں نے جوڑے ہیں
وہ سوکھے تو نہیں بیٹا
یہ پندرہ ہیں یا سولہ ہیں
مگر ہیں یہ ہزاروں میں
ذرا سا مسکرا دے نا
کہ مجھ سے چوتھے ہفتے میں
ترے چہرے کی ویرانی
کبھی دیکھی نہیں جاتی
ذرا سا مسکرا دے نا
مری جاں مسکرا دے ناں

عابی مکھنوی

منگل، 3 دسمبر، 2013

سوکھی غیرت کا ہم نے کیا کرنا

بجٹ 

آئے کوئی خریدنے آئے 
عافیائوں کی لاٹ رکھی ہے 
چند کانسی ہیں مال خانے میں 
سرخ گورے قبائلی بچے 
کھیلتے ہیں ہماری گلیوں میں 
ان کے ہاتھوں کےدام بتلاؤ 
ان کی ٹانگیں خرید لو ہم سے 
ان کے ماتھوں پہ مار دو گولے
کہ خزانے میں کچھ نہیں باقی 
ملک و ملت کی بہتری کے لیے 
جو بچا ہے وہ بیچنا ہے ہمیں 
اس بجٹ میں تو کچھ نہیں ہو گا 
سوکھی غیرت کا ہم نے کیا کرنا 
تھوڑے ڈالر ملیں تو بات بنے 
تھوڑی غیرت بکے تو کام چلے 

عابی مکھنوی 

پیر، 2 دسمبر، 2013

ہر آنکھ میرے شہر میں


سنا ہے منفی منفی سے ہمیشہ دور رہتا ہے


نہ جانے بیج کیسے تھے اگی ہیں ہر طرف لاشیں


جس دن تو نے مڑ کر دیکھا


میری لاشیں سستی کیوں ہیں؟


اڑانیں ترک کیا کرنی اجی صیاد کے ڈر سے


مجھے بھی شوق کھونے کا


جب غریب لوگوں کے خواب جل کے مرتے ہیں


۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہڑتال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جب غریب لوگوں کے
خواب جل کے مرتے ہیں
میڈیا اچھلتا ہے
گنتیوں پہ لاشوں کی
جس قدر بھڑکتی ہے
آگ یہ ۔ ۔ تھرکتا ہیں
ایک ایک میت پہ
اشتہار مِلتے ہیں
زر زمیں کے بھوکے بھی
بَن کے ٹھن کے آتے ہیں
بے نِشاں جنازوں میں
حاضری لگاتے ہیں
شاعروں ادیبوں کی
لاٹری نکلتی ہے
ایک ایک آنسو پہ
 فن کو آزماتے ہیں
 جب غریب لوگوں کے
خواب جل کے مرتے ہیں
راکھ اُن کے خوابوں کی
بے حسی کے کھیتوں میں
نوٹ بن کے اُگتی ہے
جب غریب لوگوں کے
خواب جل کے مرتے ہیں
جب غریب لوگوں کے
خواب جل کے مرتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عابی مکھنوی

LinkWithin

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...