جمعہ، 9 اکتوبر، 2015

مزدور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
وہ روڈ پہ چلتی گاڑی ہو
یا خواب نگر کا بنگلہ ہو
گاڑی میں لگے ہر پُرزے میں
ہے عکس تِری پیشانی کا
بنگلے میں چُنی سب اینٹوں میں
یہ خُوشبو تیرے خُون کی ہے
یہ رونق سب بازاروں کی
تُو ہے تو ہے مزدور مِرے
وہ اُجلے کپڑوں والے ہوں
وہ ڈاکو یا رکھوالے ہوں
سب راجکماروں کی جنت
جِن ہاتھوں سے تعمیر ہوئی
وہ ہاتھ لکیریں کھو بیٹھے
اے دست شناسو !! بتلاؤ
جو ہاتھ لکیریں کھو بیٹھے
پھر اُن کی قسمت کیا ہو گی
جو سب کو جنت دیتے ہیں
وہ دوزخ میں کیوں جلتے ہیں
کیوں بھوکے ننگے مرتے ہیں
اے دست شناسو !!! بتلاؤ
اے دست شناسو !!! بتلاؤ
عابی مکھنوی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

LinkWithin

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...